‘‘ماوریٰ’’ کا ناشر
|
21 Oct 2023
ممتاز ادیب اور مشہور افسانہ نگار غلام عبّاس نے راشد سے متعلق اپنی یادیں رقم کرتے ہوئے اُن کے مشہور شعری مجموعہ اور اس کے ناشر سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ تحریر کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
‘‘ماوریٰ’’ چھپ گئی۔ چغتائی صاحب نے اس کا بہت خوب صورت گرد پوش بنایا تھا۔ کرشن چندر نے دیباچہ لکھا تھا۔ جیسا کہ توقع تھی کتاب ملک میں بہت مقبول ہوئی۔ اور ہاتھوں ہاتھ بک گئی۔ کچھ رسائل و جرائد میں اس کے خلاف تنقیدیں بھی چھپیں مگر اس کی مقبولیت پر کچھ اثر نہ پڑا۔
اس دوران میں دوسری جنگِ عظیم چھڑ گئی۔ راشد کو فوج میں کمیشن مل گیا۔ اور وہ کپتان بن کر ملک سے باہر چلے گئے۔ کوئی ڈیڑھ دو سال بعد واپس آئے تو دلّی میں میرے ہی پاس آکر ٹھہرے۔ ان کی عدم موجودگی میں ‘‘ماوریٰ’’ کا دوسرا ایڈیشن چھپ گیا تھا۔ جس کی ایک جلد میں خرید لایا تھا۔ خوش خوش اس کی ورق گردانی کرنے لگے۔ اچانک ان کا چہرہ غصّے سے متغیر ہو گیا۔ ناشر نے دوسرے ایڈیشن میں ان کی وہ نظمیں بھی رسائل سے لے کر شامل کر دی تھیں جو انہوں نے ‘‘ماوری’’ کے چھپنے کے بعد پچھلے ڈیڑھ دو سال میں کہی تھیں۔ حالانکہ انہوں نے ناشر کو اس کی سخت ممانعت کر دی تھی۔ راشد شاید ان نظموں کو اپنے دوسرے مجموعے کے لیے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔
وہ اس واقعہ سے سخت پریشان ہوئے۔ رات کو نیند بھی نہ آئی۔ بس تڑپتے اور کروٹیں بدلتے رہے۔ صبح ہوئی تو وہ کسی کو کچھ بتائے بغیر وردی پہن کر گھر سے نکل گئے، تین چار دن غائب رہے۔ اس کے بعد آئے تو بڑے ہشاش بشاش، لپٹ لپٹ کر گلے ملتے اور قہقہے لگاتے رہے۔
بولے، جانتے ہو میں کہاں سے آرہا ہوں؟ لاہور سے۔ میں اس صبح اپنے دفتر سے اجازت لے کر لاہور روانہ ہو گیا تھا۔ میں سیدھا انار کلی چوک کے تھانے میں پہنچا۔ میں نے تھانے دار سے کہا، میں فوج میں کپتان ہوں۔ میں جنگ کے سلسلے میں ملک سے باہر گیا ہوا تھا، ہمیں بتایا گیا ہے کہ جب ہم جنگ پر ملک سے باہر جائیں تو سرکار ہمارے پیچھے ہمارے حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔ اب دیکھیے میرے ساتھ میرے پبلشر نے کیا کیا، اس کے بعد میں نے تھانے دار کو اس واقعہ کی تفصیل بتائی۔ اس نے کہا، صاحب آپ فکر نہ کریں، میں ابھی اس کا بندوبست کرتا ہوں۔ اس نے فوراً سپاہی بھیج کر ناشرکی دکان پر تالا ڈلوا دیا۔ اس کے ساتھ ہی جس پریس میں کتاب چھپی تھی اس کے مالک کو بھی طلب کر لیا۔
‘‘ماوریٰ’’ کا ناشر بڑا اکڑ باز تھا۔ بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ کبھی کبھی مارپیٹ تک نوبت پہنچ جاتی تھی۔ مگر راشد کی اس کارروائی سے اس کی ساری اکڑ فوں نکل گئی۔ گڑگڑا کر راشد سے معافی مانگی اور کہا کہ میں پوری رائلٹی کے علاوہ ایک ہزار روپیہ اس کا ہرجانہ بھی دوں گا۔ پریس والے بے قصور تھے، انہیں معاف کر دیا گیا۔ البتہ ان کے رجسٹر سے اس امر کا انکشاف ہوا کہ پہلا ایڈیشن ایک ہزار نہیں جیسا کہ اس میں درج تھا بلکہ دو ہزار جلدوں کا چھاپا گیا تھا۔ چنانچہ ناشر کو ایک ہزار کی مزید رائلٹی ادا کرنی پڑی۔
Comments
0 comment